Wednesday, 27 November 2019

خود پسندی


 

خود پسندی۔۔۔۔۔( تحریر: عقیلہ نوال)

میں۔ میرا۔ مجھے ۔۔۔۔۔ کتنے میٹھے الفاظ ہیں! سنتے ہیں تو لگتا ہے کہ سماعتوں میں امرت گھل گیا ہو۔ قدم خود بخود گردوغبار سے اٹی زمین سے بلند ہوتے جاتے ہیں اور ناجانے کب مخمل سے آسمان پر رکھ دیے جاتےہیں۔ میں ہوں تو مجھ سے دنیا ہے، میں ہوں تو مجھ سے رشتے ہیں، میں نے کیا کیا سنبھالا ہوا ہے۔ جو ہے صرف میرا ہے اورجو میرا ہے وہ کیونکر کسی اور کا  بھی ہو۔ خلوص مجھ سے شروع مجھ پہ ختم,مجھ سے بہتر دوست کب کوئی ہو سکتا ہے ۔جو میں کر سکتا ہوں کسی نے کیا ہے نہ کسی سے ہوگا خود پسندی کے خود ساختہ معیار۔۔۔۔۔خود پسندی ایک لا علاج مرض بنتی جا رہی ہے، اس کے نشے میں غرق بد نصیبوں کو نہ کوئی نام سنائی دیتا ہے نہ کوئی ذات دکھائی دیتی ہے۔ ہاں ! بد نصیب ہی تو ہیں جو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نام بنانے کے لیےذات کو مٹانا پڑتا ہے۔ دنیا ایسے یاد نہیں رکھتی....خونِ جگر دے کر تاریخ رقم کی جاتی ہے۔  مگر کون ہے جو  سمجھنے کو تیار ہو، کوئی کیونکر اپنی ذات خود فنا کر ڈالے، خود پسندی کے غرور سے تنی گردنوں میں خم کیسے آئے۔ آئینوں کی دنیا میں بسنے والے خود پسندوں میں   انسانیت کیونکر بیدار ہو جائے۔۔۔۔۔۔ کاش کہ کوئی سمجھ جائے کہ بلندی انکساری اور عاجزی کے زینے پہ قدم رکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔  کیاخوب کہا گیا ہے

جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
 صراحی سر نگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ۔۔۔۔

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...