شاعرہ: عقیلہ نوال
نظم: رقصِ بسمل
رقصِ بسمل بھی ہوں تماشا بھی ہوں میں
کہیں بھی نہیں اور بے تحاشا بھی ہوں میں
میں وہ آوارہ مزاج پرندہ ہوں
جو نہ آشیاں کا ، نہ بیاباں کا
گم گشتہ بھی ہوں اور شناسا بھی ہوں میں
رقصِ بسمل بھی ہوں تماشا بھی ہوں میں
یوں تو اک زندہ وجود ہوں
مگر مٹی کے اس بت کدے میں
اک مجسمہ تراشا بھی ہوں میں
رقصِ بسمل بھی ہوں تماشا بھی ہوں میں
مثلِ چٹان تو کبھی ٹمٹماتا سا دِیا
کبھی بجھا چاہتا ہوں
تو کبھی جگمگاتا بھی ہوں میں
اک ٹوٹتا سا دلاسہ بھی ہوں میں
رقصِ بسمل بھی ہوں تماشا بھی ہوں میں
No comments:
Post a Comment