Saturday, 12 March 2022

سفر اور زندگی

 

تحریر : عقیلہ نوال

سفر!

سفر چاہے زندگی کا ہو یا راستوں کا ، ساتھی اچھا مل جائے تو طویل اور کٹھن راستہ بھی خوش دلی سے یوں کٹ جاتا ہے کہ جیسے کوئی مختصر سا حسین لمحہ گزرا ہو، جیسے خوشگوار ہوا کا جھونکا چھو کر گزر جائے ، جیسے کسی سدا بہار پھولوں سے لدی ڈالی کی خوشبو رگ و پے میں سرایت کر گئی ہو۔ پھر اس خوشبو سے کتنا ہی دور چلے جاؤ تو بھی اس خوشبو کا احساس دل و دماغ کے گوشوں میں یوں محفوظ ہو جائے کہ اس احساس کا پرانا اور معدوم ہونا مشکل ہو جائے ۔

زندگی!

زندگی بھی عجب شے ہے ۔ کبھی کبھی اجنبیوں سے ایسے متعارف کرواتی ہے کہ انسان کو اپنے وجود کا کوئی کھویا ہوا ٹکرا مل جائے۔ نا آشنائی جب آشنائی میں بدلتی ہے تو انسان اپنی پرتوں کے حصار سے باہر نکل کر خود سےاور خلوص سے بھرپور رشتوں سے یوں شناس ہوتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ کبھی اجنبیت کے احساس سے عاری ہونا ، شناسائی کی گرہیں کھلنا اور کسی سے دل کھول کر ملنا بھی اس قدر خوبصورت ہو سکتا ہے کہ احساس کو الفاظ کی حدود میں قید کرنا مشکل ہو جائے۔ شناسائی کے احساس کی مسرتیں نس نس سے پھوٹنے لگیں اور رشتوں کی پاکیزگی ،چاشنی اور لذت کو بھلانا ممکن ہی نہ ہو

 

 

No comments:

Post a Comment

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...