Thursday, 5 July 2018

تماشہِ عام


شاعرہ: عقیلہ نوال  
مہربانوں کی بستی میں لٹیروں کا بسیراہے
دو بول محبت والےاورناداں پرندہ گھیرا ہے 

وہ جنت سا منظر ہے، کیا خوب بہاریں ہیں
 روشن رخ ماہتاب سا یہ قاتلوں کا ڈیرا ہے 

کیا شیریں بیا نی اہل ظر ف کی کر دوں بیاں؟
جو گمان میں تیرا ہے،میرے سامنےمیرا ہے 

زندان شام میں پکار کے دیکھو ان اجالوں کو
جہاں ابدی سویرا تھا،لودیکھو اب اندھیرا ہے 

مجھ کو تو مارہی ڈالے گا یہ عام تماشہ عین
 شہد میں لپٹے خنجر کا زخم بہت ہی گہرا ہے

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...