Thursday, 31 December 2020

ر ختِ سفر

 

شاعرہ: عقیلہ نوال

نظم: ر ختِ سفر

کیا پا لیا تھا اور کیا ہم نے اب  کھونا ہے

بھول بیٹھے ہیں جیسے کہ ہنسنا تھا یا رونا ہے

میں کل اثاثوں کو اپنے سمیٹتے ہوئے

اعداد و شمار کی عظیم کشمکش میں ہوں

 کبھی بے ترتیب سے ٹکڑے جوڑکر

میں کسی نئے کردار کی کوشش میں ہوں

انجان راہوں پہ جو کبھی لڑکھڑاتی ہوں

میں اپنے ہی وجود سےجو ہار جاتی ہوں

شاید  حالات کی  گہری سازش میں ہوں

حیرت کہ میں پھر بھی جینے کی خواہش میں ہوں

وہ جو زینہ زینہ  ارمان دل سے اتر گئے

دلبری کے تقاضے  لئے ساتھ جانے کدھر گئے

فریبی دل  اب بھی جانے کس بات پر مطمئن ہے

 یہ   بھی پہلو ہے اک حقیقت  کا

کہ ہر قافیہ محبت کا کب حوصلہ شکن ہے

Saturday, 19 September 2020

مخمصہ

 

شاعرہ: عقیلہ نوال

ابھی تو ابتدا سفر  کی ہے

بات تو پہلی سی سحر کی ہے

 

کیا سنے کوئی داستانِ حیات

گفتگو  ساری  بس دہر کی ہے

 

ہمیں  آشوبِ چشم بھی منظور

آرزو تحفظِ نظر کی ہے

 

ہوئے تھے زیر جو کبھی تو کیا

بات جاری تو اب زبر کی ہے

 

یہی  اک مخمصہ رہا ہے عین

شہر میں آگ کس خبر کی ہے

 

 

Wednesday, 16 September 2020

گورکھ پنتھی

 

شاعرہ:  عقیلہ نوال

نظم : گورکھ پنتھی

گورکھ پنتھیوں کے جہاں  میں

سب  دھندھےگورکھ دھندھے ہیں

کہاں سے اب کوئی عیسیٰ آئے

کون بلائے مہدی کو

ہر سو تو دجال کے  پھندے ہیں

نام نہادی  مذہبی لوگ

علم و حکمت کے نام پہ روگ

تم کیا جانو ابلیس کے یہ بندے ہیں

یہ کیسا تانا بانا ہے

جو آیا ،لوٹ کے جانا ہے

پھر بھی دیکھو کیسے لوگ یہ اندھے ہیں

سب باتیں جھوٹی باتیں  ہیں

جو سمجھو ، فقط اندھیری راتیں ہیں

اک بستر ہے بِن تکیے کا

اور چار انجانے کندھے ہیں

گورکھ پنتھیوں کے جہاں  میں

سب  دھندھےگورکھ دھندھے ہیں

 

 

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...