شاعرہ: عقیلہ نوال
نظم : گورکھ پنتھی
گورکھ پنتھیوں کے جہاں میں
سب دھندھےگورکھ دھندھے ہیں
کہاں سے اب کوئی عیسیٰ آئے
کون بلائے مہدی کو
ہر سو تو دجال کے پھندے ہیں
نام نہادی مذہبی لوگ
علم و حکمت کے نام پہ روگ
تم کیا جانو ابلیس کے یہ بندے ہیں
یہ کیسا تانا بانا ہے
جو آیا ،لوٹ کے جانا ہے
پھر بھی دیکھو کیسے لوگ یہ اندھے ہیں
سب باتیں جھوٹی باتیں ہیں
جو سمجھو ، فقط اندھیری راتیں ہیں
اک بستر ہے بِن تکیے کا
اور چار انجانے کندھے ہیں
گورکھ پنتھیوں کے جہاں میں
سب دھندھےگورکھ دھندھے ہیں
No comments:
Post a Comment