Friday, 4 September 2020

نقشِ گمشدہ

شاعرہ: عقیلہ نوال

نظم: نقشِ گمشدہ

تیری آنکھوں کی میں اسیر

میرے لہجوں میں تُو بولے

اوراقِ زندگی پلٹ جائیں

جو  تُوبولنے کو لب کھولے

یہ انجان راستوں کی کھوج میں

جو بھٹکے سے پھر رہے ہو

خدا جانےکسی نقش ِ گمشدہ کی پیروی  میں

تُوخود کو    ہے  کیوں رولے

میرا دکھ تو ہوا   کب کا منتشر

نین خوابوں کے  اب عکس بنیں

چاند بھی  میرےہمراہ چلے،اگر    ساتھ تُوہو لے

ذرا سا بھی پگھلتا نہیں

پہلو میں رکھا  پتھر ہے

اس کو دل جو کرنا ہو تو جی بھرکے رو لے

بھرم بھی رہ جائے

مان بھی نہ ٹوٹے

بیتے  لمحوں کو   بھی  اب  کوئی  نہ پھرولے

ارمان تو بکھر گئے

ضبط ابھی بھی قائم ہے

اک تیرے ہونے نے زندگی میں  کئی رنگ گھولے

No comments:

Post a Comment

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...