شاعرہ: عقیلہ نوال
کیا یقیں کیا گماں، جو اعتبار نہیں
وہ آنکھ ہی کیا بھلا، جو اشکبار نہیں
لو کون اٹھ چلا ہے یہ بزمِ نجم سے اب
گواہ تارے بھی ہیں کہ ذکرِ یار نہیں
دلِ بے تاب یوں تیرا مسکرانا بجا
مگر ہے ہستی کا ساماں، کاروبار نہیں
دھواں دھواں جو ہوئے خیال، وہم و گماں
وہ لکڑی راکھ ہو پھر جو مشکبار نہیں
کیا جی سکے کا اس جہانِ تگ و دَو میں
وہ شخص جو چلا غم میں سوئے دار نہیں
ہوئے بھی عین جو خوش مزاج تو کیا ہوا
جو غمِ زندگی ، غمِ روزگار نہیں