Saturday, 29 August 2020

غمِ روزگار

شاعرہ: عقیلہ نوال

کیا یقیں کیا گماں، جو اعتبار نہیں

وہ آنکھ ہی کیا بھلا، جو اشکبار نہیں

 

لو کون اٹھ چلا ہے یہ بزمِ نجم سے اب

گواہ تارے بھی ہیں کہ  ذکرِ یار نہیں

 

دلِ بے تاب یوں تیرا مسکرانا بجا

مگر  ہے ہستی کا ساماں، کاروبار نہیں

 

دھواں دھواں جو ہوئے خیال، وہم و گماں

وہ لکڑی راکھ ہو پھر جو مشکبار نہیں

 

کیا جی سکے کا اس جہانِ تگ و دَو میں

وہ شخص جو  چلا  غم میں سوئے دار نہیں

 

ہوئے بھی عین جو خوش مزاج تو کیا ہوا

جو غمِ زندگی ، غمِ روزگار نہیں

Wednesday, 12 August 2020

آزمائش

 

تحریر: عقیلہ نوال

بِلا عنوان

آزمائشوں سے لڑ جانے والوں کو ہیرو اور ڈر جانے والوں کو بزدل ، کائر، ڈرپوک ، زیرو اور ناجانے کون کون سے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ کیا ہار جانے والے نے اپنی جنگ لڑنے کی کوشش نہیں کی ہوتی؟ لیکن یہ  ہار جیت  کامعیار کون طے کرتا ہے؟؟؟ یا تو وہ جنہوں نے ایسی آزمائشوں کا سامنا نہ کیا ہو یا وہ خوش قسمت جو حالات سے جنگ جیت گئے ہوں۔

ہر ایک کی آزمائشوں کی نوعیت اور دورانیہ مختلف ہوتا ہے پھر ایک دوسرے سے موازنہ سراسر بےو قوفی ہے۔ ہمارے ارد گرد ناجانے کتنے خوش نظر آنے والے چہرے کتنی ہی جنگیں لڑ رہے ہوں ہم ان سے بے خبر رہتے ہیں۔ وہ اکیلے ہی لڑتے رہتے ہیں ، اپنا بازو بھی خود بنتے ہیں ، خود کو حوصلہ اور ہمت بھی خود دیتے ہیں ۔ لیکن جب آزمائشوں کا دورانیہ طویل ہو جائے اور وہ شکستہ پا ہو کر لڑکھڑائیں یا گر جائیں مگر پھر بھی تمام تر ٹوٹی ہمتوں کو جوڑے قدموں کو سوچوں کی تقویت پہنچائے اٹھ کھڑے ہوں مگر حالات کے تھپیڑے رکنے کا نام نہ لیں اور آزمائشوں کی لہریں بیچ سمند ر میں لا کھڑا کریں۔ کوئی حس بھی کام نہ کرے ، ساری تیراکیاں بھول جائیں ، کوئی اعضاء بھی ساتھ دینے کو تیار نہ ہو، کہیں سے مثبت سوچوں کی روشنی نظر نہ آئے، کوئی گھپ  اندھیرا انہیں لے ڈوبے تو دانش ور ، اہلِ عقل  ، سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد یہ فیصلہ سنا دیتے ہیں کہ فنا ہو جانے والا وجود انسان کا نہیں تھا وہ تو کوئی شکستہ پا ، بزد ل سایہ تھا اسے بھلا کیا  علم کہ آزمائش چیزکیا ہے!!!

ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں جب ان کے ہی ارد گرد توڑ پھوڑ کا عمل زوروں سے جاری ہوتا ہے۔ ان کی دانشوری اور باریک بین نظر وہ ٹوٹتے اجسام کو سمیٹنے کیوں نہیں چلی آتی؟ لیکن یہ تو اپنے جھوٹے وجودوں کی تعمیر میں لگے ہوتے ہیں جسے دنیا کی نظر میں عظیم اور معتبر دکھانا ہوتا ہے۔ در حقیقت یہ معتبر شخصیات اپنی تعمیر کے دوران ارد گرد کی توڑ پھوڑ کی ذمہ دار ہونے کے باوجود  ہر الزام سے، ہر ذمہ داری سے سبکدوش ہو کر فنا ہو جانے والوں کٹھہرے میں لا کھڑا کرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔

سوال یہ ہے کہ  اگر ہم اپنے جھوٹے وجودوں کی ، جھوٹی اناؤں کی ، جھوٹی شانوں کی تعمیر چھوڑ کر محبتوں، ہمدردیوں  اور رحمدلی کو  اپنا دین بنا لیں گے تو کیا ہم واقعی ہیں بندوں اور معبود کی نظر میں معتبر نہ ہو جائیں گے۔ مگر اب :

کون   لے کر وحی آئے، کون سکھائے دین نیا

ہر کوئی عابد ، ہر کوئی حاجی ،  سب ہی  عالم ٹھہرے

جس نےبولا سچ  اس دور  کے علم  و حکمت والوں سے

وہی  کائر، وہی بزدل ، وہی تو بس ظالم ٹھہرے

Friday, 7 August 2020

جھوٹی شانیں

شاعرہ: عقیلہ نوال

مان بھی لو جو سچ ہے

اونچے شملے، جھوٹی شانیں

دیکھو  ابلیس بھی دیں اذانیں

کس کو مجرم کہتے ہو بھلا!!!

جو گناہوں کے بھرم رکھے ہے؟

ظالم کے ظلم  کی شرم رکھے ہے؟

وہ جو سہہ کے بھی تم پہ نظرِ کرم رکھے ہے؟

پارسائی سے تیری  وہ بے خبر نہیں  ہے

زمانہ جو بھی کہے، تو معتبر نہیں ہے

رشتے کیا انسانیت کو  بھی پامال کرتے ہو

تم  وہی باغباں ہو جوگلوں کا  برا حال کرتے ہو

مان بھی لو جو سچ ہے

کیسا دین ،کونسی دنیا داری

عزت، عصمت ، غیرت ، حرمت

تمہیں  بھولی سب کی  پاسداری

تم ظاہر باطن ایک ہی کر لو

اے پارساؤ ، خود کو نیک ہی کر لو

کاش کہ کسی روز اپنے اندر کی بے حیائی کا

جو تم  نےرچا رکھی ہے اس بے ریائی کا

خلوت کے چند لمحوں میں گلا گھونٹ ڈالو،اسے تم فنا کر دو

مگر وہ جو کردار ہے دکھاوے کا  ،اسی کو سچ اور بقا کر دو

کاش کہ تم   مان بھی لو جو سچ ہے

یہ  سب اونچے شملے، جھوٹی شانیں  ہیں

عزت ذلت اسی نے دینی جس ہاتھ میں سب جانیں ہیں

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...