شاعرہ: عقیلہ نوال
نظم: ر ختِ سفر
کیا پا لیا تھا اور کیا ہم نے اب کھونا ہے
بھول بیٹھے ہیں جیسے کہ ہنسنا تھا یا رونا ہے
میں کل اثاثوں کو اپنے سمیٹتے ہوئے
اعداد و شمار کی عظیم کشمکش میں ہوں
کبھی بے ترتیب سے ٹکڑے جوڑکر
میں کسی نئے کردار کی کوشش میں ہوں
انجان راہوں پہ جو کبھی لڑکھڑاتی ہوں
میں اپنے ہی وجود سےجو ہار جاتی ہوں
شاید حالات کی گہری سازش میں ہوں
حیرت کہ میں پھر بھی جینے کی خواہش میں ہوں
وہ جو زینہ زینہ ارمان دل سے اتر گئے
دلبری کے تقاضے لئے ساتھ جانے کدھر گئے
فریبی دل اب بھی جانے کس بات پر مطمئن ہے
یہ بھی پہلو ہے اک حقیقت کا
کہ ہر قافیہ محبت کا کب حوصلہ شکن ہے