Monday, 26 July 2021

رقصِ بسمل


 

شاعرہ: عقیلہ نوال

نظم: رقصِ بسمل

 

رقصِ بسمل بھی ہوں تماشا بھی ہوں میں

 کہیں بھی نہیں اور بے تحاشا بھی ہوں میں

میں  وہ آوارہ  مزاج پرندہ ہوں

جو نہ آشیاں کا  ، نہ بیاباں کا

گم گشتہ بھی ہوں اور شناسا بھی ہوں  میں

رقصِ بسمل بھی ہوں تماشا بھی ہوں میں

یوں تو اک زندہ وجود ہوں

مگر مٹی کے اس بت کدے میں

اک مجسمہ تراشا بھی ہوں میں

رقصِ بسمل بھی ہوں تماشا بھی ہوں میں

مثلِ چٹان تو کبھی ٹمٹماتا سا دِیا

کبھی بجھا چاہتا ہوں

تو کبھی جگمگاتا بھی ہوں میں

اک ٹوٹتا سا دلاسہ بھی ہوں میں

رقصِ بسمل بھی ہوں تماشا بھی ہوں میں


Wednesday, 24 March 2021

اے خلشِ نہاں


شاعر: عقیلہ نوال

نظم:  اے خلشِ نہاں

اے خلشِ نہاں

تجھ کو معلوم کیا

کتنے رتجگے کتنی خاموشیاں

کتنی آوازیں کتنی تاریکیاں

کیسے ملی ہیں زیست کی کڑیاں

اے خلشِ نہاں

تجھ کو معلوم کیا

وجود زن جو برگ و بار ٹھہرا

وجود زن جو جسم کا کاروبار ٹھہرا

جھیلی ہیں اس نے کیسی سختیاں

اے خلشِ نہاں

تجھ کو معلوم کیا

یونہی شل تو نہیں ہو گئے نازک پا

یونہی منجمد تو نہیں ہو گئے خواہ مخواہ

پل بھر میں جئیں ہیں کئی صدیاں

اے خلشِ نہاں

تجھ کو معلوم کیا

احساس کےسب ترجماں

ناجانے مر گئے ہیں کہاں

ہوا کے دوش پہ رکھے بجھ گئے چراغ یہاں

اے خلشِ نہاں

تجھ کو معلوم کیا

 

Saturday, 16 January 2021

کتا ب ہوں میں

 

شاعرہ: عقیلہ نوال

اک گہری کتاب ہوں میں

کہ کوئی کھلا باب ہوں  میں

ورق یہ  سارے پلٹ کر دیکھ

ایسا کوئی سراب ہوں میں

اپنے سارے سوالوں کا

خود ہی اک جواب ہوں میں

اک سایہ ہوں روبرو سا

مگر سراپا حجاب ہوں میں

تیری رسائی سے دور ہوں

پھر بھی دستیاب ہوں میں

اپنے لئے ہی ہوں معتبر

خود ہی آپ جناب ہوں میں

عین میں اور کہوں کیا تم سے

زندگی کا حساب ہوں میں

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...