Monday, 4 September 2023

شخصی بحران

 

تحریر: عقیلہ نوال

عنوان : شخصی بحران

ہر انسان کی شخصیت میں کوئی نہ کوئی کمزوری پائی جاتی ہے اور بے شک انسان میں پائی جانے والی شخصی کمزوریوں کی بنا پر ہی وہ انسان کہلاتا ہے ورنہ شاید فرشتہ ہوتا ۔

مگر ان کمزوریوں کے ساتھ اپنی شخصیت کو تسلیم کرنا اور وقت کے ساتھ ساتھ خود میں بہتری لے آ کر آنا ہی ایک بہترین انسان ہونے کی علامت ہے۔  مدعا یہ  نہیں کہ شخصیات میں کمزوریاں کیوں پائی جاتی ہیں بلکہ شخصی بحران کا شکا ر ہونا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ بات  جو توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اس قدر شخصی بحران کا شکار ہوتے ہیں کہ اپنی ذات کی انفرادیت کو سمجھنے سے قاصر ٹھہرتے ہیں یعنی دوسروں میں پائی جانے والی خوبیوں کو اپنی شخصیت  سے تشبیہ دینے لگنا ، کوئی گھومنے پھرنے کا شوقین ہے تو اسے دیکھا دیکھی خود کو سیاح بنا کر پیش کرنا، کسی کو پینٹنگ کا شوق ہے تو اسے دیکھ کر خود کو مصور پیش کرنا   وغیرہ وغیرہ۔

اگر بات کسی سے کوئی ہنر سیکھنے کی حد تک یا کسی نئے شوق کو پالنے کی حد تک ہو تو مناسب بھی لگتی ہے لیکن اگر یہی سب صرف دکھاوے کی غرض سے اپنی شخصیت کو ایک فرضی ،جھوٹی یا من گھڑت شخصیت کے روپ میں دکھانے کی  کوشش میں کیا جائے تو اسے ایک ذہنی بیماری کہنا غلط نہ ہو گا۔ ایسی شخصیات نہ صرف اپنی انفرادی شخصیت کو قبول کرنے میں ناکام ہوتی ہیں بلکہ اک ایسے سراب سی زندگی بسر کر رہی ہوتیں ہیں جس سےکچھ حاصل نہیں ہونے والا ۔ اس لئے ہر انفرادی شخص کا خود کو اپنی کمزوریوں کے ساتھ قبول کرنا اور  اپنے آپ کو بہتر بنانا   انتہائی ضروری عمل   ہے تا کہ ایک صحت مند اذہان پر مشتمل معاشرہ جنم لے سکے۔

 

Tuesday, 1 August 2023

ملاقات

نظم : ملاقات

شاعرہ: عقیلہ نوال

بس تصور میں ملاقات کیے  جاتے ہیں

قسمت کے مارے اکتفات کیے جاتے ہیں

سراب سی ہے   ڈور زندگانی کی

جیسے عشق میں گل فشانی سی ، جیسے بے شعور جوانی سی

سمجھو کوئی ادھوری کہانی سی

مگر جاودانی سی

یونہی روز نئی شروعات کیے جاتے ہیں

قسمت کے مارے اکتفات کیے جاتے ہیں

 

تان غزل کی بندھی ہو نظم کے ترنم سے

جیسے قافیہ محبت کا  ، ردیف ہو چاہتوں کا

جیسے لمحوں میں لمس ہو انہی آہٹوں کا

وصل ہو بس مسکراہٹوں کا

کیسے بِن ملاقات ہی بات کیے جاتے ہیں

قسمت کے مارے اکتفات کیے جاتے ہیں

 

بس فاصلہ طویل ہے ، زندگی قلیل ہے

تو بھی حسین ہے ، وہ بھی جمیل ہے

آہنی فصیل ہے، آنکھ ہے کہ جھیل ہے

      خموش لب  ہیں، قناعت کیے جاتے ہیں

قسمت کے مارے اکتفات کیے جاتے ہیں

 

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...