نظم : ملاقات
شاعرہ: عقیلہ نوال
بس تصور میں ملاقات کیے جاتے ہیں
قسمت کے مارے اکتفات کیے جاتے ہیں
سراب سی ہے ڈور زندگانی کی
جیسے عشق میں گل فشانی سی ، جیسے بے شعور جوانی سی
سمجھو کوئی ادھوری کہانی سی
مگر جاودانی سی
یونہی روز نئی شروعات کیے جاتے ہیں
قسمت کے مارے اکتفات کیے جاتے ہیں
تان غزل کی بندھی ہو نظم کے ترنم سے
جیسے قافیہ محبت کا ، ردیف ہو چاہتوں کا
جیسے لمحوں میں لمس ہو انہی آہٹوں کا
وصل ہو بس مسکراہٹوں کا
کیسے بِن ملاقات ہی بات کیے جاتے ہیں
قسمت کے مارے اکتفات کیے جاتے ہیں
بس فاصلہ طویل ہے ، زندگی قلیل ہے
تو بھی حسین ہے ، وہ بھی جمیل ہے
آہنی فصیل ہے، آنکھ ہے کہ جھیل ہے
خموش لب ہیں، قناعت کیے جاتے ہیں
قسمت کے مارے اکتفات کیے جاتے ہیں