Saturday, 11 May 2024

عنوان:                                                      یہ بات ہے صرف ظرف کی

تحریر:                                                                عقیلہ نوال

انسان کے الفاظ اور افعال اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اس آئینہ کے منظر  کی عکاسی کرنے کے لئے ایک واقعہ گوش گزار کرتی چلوں۔

چند روز پہلے کی بات ہے کسی دوست نے بڑے خلوص سے کھانے کی دعوت دی اور اصرار کیا کہ کھانا اس بار میری طرف سے ہے تو آپ ہمیشہ کی طرح بل نہیں دیں گی۔  میری ذاتی رائے ہے کہ بل کوئی بھی دے اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ، اصل  بات جو معنی رکھتی ہے وہ کسی کا اپنی روزمرہ روٹین سے آپ کے لئے خاص وقت نکال کر آنا ہے۔طےشدہ وقت پر ہم ریسٹورنٹ پہنچ گئے،دوست نے بڑے خلوص سے گلے لگایا ، ہم نے ڈھیروں باتیں کی، کھانا کھایا اور انتظار کرنے لگے کہ وہ بل دیں تو ان سے اجازت لیں ۔ جب کافی دیر ہو گئی تو بیرے کو خود ہی آواز لگا کر کہا  "بھائی ذرا بل لے آئیں"۔

 بیرے نے بل لا کر ان محترمہ کے آگے کیا لیکن محترمہ نے جان بوجھ کر دیکھی ان دیکھی کر دی- ہم نے ہاتھ آگے بڑھا کر بل پکڑا اور بیرے کو کارڈ تھما دیا۔ بیرے نے معذرت کی کہ پیمنٹ صرف کیش میں ہو گی۔  باہر تیز بارش تھی اور پرس میں بس چار پانچ ہزار مشکل سے ہوں گے، کسی کی دعوت پر آئے تھے تو سوچا کہ اتنا کیش آنے جانے کے لئے کام آ جائے گا پھر بعد میں کیش نکال لیں گے۔ ساتھ بیٹھی محترمہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی تھی کہ جیسے وہ کسی اور کے ساتھ وہاں آئی ہوں۔ ہم نے شرمندہ سا ہو کر پوچھا کہ پیسے ٹرانسفر کر سکتی ہوں ؟جاز کیش یا ایزی پیسہ میں۔ بیرے نے فَوراً  ہاں میں جواب دیا تو جان میں جان آئی۔ لیکن آج کے دن کا سورج تو ہمیں شرمندہ کرنے کی غرض سے طلوع ہوا تھا۔ سونے پر سہاگہ کہ ریسٹورنٹ بیسمنٹ میں تھا اور سگنل نادارد۔ صاحبہ ابھی تک دنیا سے بے نیاز بیٹھی تھیں۔ ہم نے بڑے ہی شرمسار ہو کر بیرے سے درخواست کی کہ ذرا سیڑھیوں تک جا کر ٹرانسفر کر دیتے ہیں۔ اللہ اللہ پیسے ٹرانسفر ہوئے تو سکون آیا۔ بیرے کی نظریں ہمیں مزید شرمندہ کیے جا رہی تھی۔

ادھر پیسے ٹرانسفر ہوئے تو ادھر بت بنی محترمہ دنیا میں واپس آ گئیں۔ پھر سے وہی خلوص، وہی محبتیں۔ دل میں سوچا ،  -"اےاللہ  یا تو ایسا بنا دے یا ایسوں سے بچا لے۔ "

یقین مانیں پیسہ کسی رشتے سے بڑا نہیں ہو سکتا- خلوص، محبت اور وقت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ۔  کھانا کھا بھی لیا گیا، اس کی قیمت بھی ادا ہو گئی مگر اس بندی کا جان بوجھ کر کیا وہ عمل ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا۔ میں نے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے وہ کسی دوست کو کھانا کھلائیں تو کبھی جتا دیتے ہیں کہ "یاد کرو جب ہم نے کھلایا تھا "۔ اول تو انسان کسی کو کھلانے والا کون ہوتا ہے جب اس رازق نے دانے دانے پر کھانے والے کا نام لکھ رکھا ہے۔

بات ہو رہی تھی کہ انسان کے افعال اور الفاظ اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں تو اگر آپ نے زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ بیٹھ کر کبھی کھانا کھایا اور اس نے کسی موقع پر جتلا کر آپ پر گہری چوٹ کی ہو تو چوٹ کرنے والے شخص  کے چہرے پر شاید اس گفتگو میں وقتی طور پر   فاتحانہ مسکراہٹ تو  آئی ہو گی مگر یقین مانیں اس نے صرف اپنا ظرف دکھایا ہے۔ آپ کبھی کسی کے سامنے روئے ہوں، کسی سے اپنی ذاتی بات کہہ دی ہو کچھ ایسا شیئر کر لیا ہو دوست سمجھ کر جو آپ نے کسی اور سے نہ کیا ہو اور اس شخص نے موقع دیکھ کر چوٹ کر دی ہو تو بھی "تسلی رکھیں "آپ نے کچھ غلط نہیں کیا  بلکہ اس شخص نے اپنا آپ ظاہر کر دیا۔ آپ کسی کے سامنے اپنے خول سے باہر آئے ہوں، کھل کر ہنسے، کھیلے، ناچے، گائے، روئے  یا کسی کے ساتھ مل کر کبھی کھایا پیا اور کسی شخص نے ایسی بات کہہ کر آپ کے ضمیر پر چوٹ کر دی اور آپ اس سوچ میں پڑ گئے کہ شاید مجھے اس شخص کے سامنے یہ سب نہیں کرنا چاہیے  تھا -تو یقیں جانیئے اب بھی غلطی آپ کی نہیں ہے بلکہ اس شخص کی کم ظرفی کی ہے ۔   

کسی نے آپ کو خلوص کی چادر میں لپیٹ کر تھپڑ مار کر کہیں شرمندہ کرنے کی چھوٹی سی کوشش بھی کی تو اس نے آپ کا کچھ نہیں بگاڑا، بس آپ کی نظروں میں اپنا احترام اور وقعت کھو دی ہے۔ ہم سب کو الحمداللہ کھانا بھی مل جاتا ہے، ہم اپنے دل کی بات کسی انسان سے نہیں تو اللہ سے بھی شیئر کرسکتے ہیں۔ ہم ایک دوست کے سامنے ہنسیں ، ناچیں ، گائیں گے نہیں تو ہماری زندگی میں کوئی اور اچھا دوست شامل ہو جائے گا جس کے سامنے ہم کھل کر یہ سب کر سکیں۔ اس لئے کسی کم ظرف  کی گئی چوٹ کو دل پر لے کر اپنا آپ نہیں کھونا چائیے۔ 

  آپ جیسے ہیں بہترین ہیں اور اللہ آپ کی زندگی میں بہترین لوگوں کو شامل کر دے گا۔ ان شاءاللہ۔

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...