تحریر: عقیلہ نوال
میری سوچیں تو یہ سوچ سوچ کہ مفلوج ہوگئی ہیں کہ لوگ اپنے چہروں پر نقاب کیوں سجائےرکھتے ہیں۔بعض اوقات تو بہت اٌجلے اور ڈیسنٹ چہرے بھی بڑی آ سانی سے فریب دے جاتے ہیں۔اور میں تو ابھی اس دنیا کے سمندر میں اٌترنا چاہتی ہوں کہ کنارے سے کوئی لہر اٌٹھتی ہے اور میرے پاؤں زمیں سے اٌکھڑ جاتے ہیں، لیکن پھر بھی ان لہروں کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتی ہوں کہ اس کے بنا چارہ بھی نہیں۔
کاش!
یہ دٌنیا اپنا ظاہر اور باطن ایک ہی رکھے اور جو کوئی زبان سے کہتا ہے اس کا عمل بھی ویسا ہی ہو نا چاہیے۔
عین ممکن ہے کوئی ان لفظوں کے کھیل سے ایک حقیقت کو چھپا کر مطمئن کر دے لیکن اس روح کے قرب کااندازہ اور کیا ہو گا کہ اس کوسچائی میں لپٹا جھوٹ متاثر کر جائے۔
میری سوچیں تو یہ سوچ سوچ کہ مفلوج ہوگئی ہیں کہ لوگ اپنے چہروں پر نقاب کیوں سجائےرکھتے ہیں۔بعض اوقات تو بہت اٌجلے اور ڈیسنٹ چہرے بھی بڑی آ سانی سے فریب دے جاتے ہیں۔اور میں تو ابھی اس دنیا کے سمندر میں اٌترنا چاہتی ہوں کہ کنارے سے کوئی لہر اٌٹھتی ہے اور میرے پاؤں زمیں سے اٌکھڑ جاتے ہیں، لیکن پھر بھی ان لہروں کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتی ہوں کہ اس کے بنا چارہ بھی نہیں۔
کاش!
یہ دٌنیا اپنا ظاہر اور باطن ایک ہی رکھے اور جو کوئی زبان سے کہتا ہے اس کا عمل بھی ویسا ہی ہو نا چاہیے۔
عین ممکن ہے کوئی ان لفظوں کے کھیل سے ایک حقیقت کو چھپا کر مطمئن کر دے لیکن اس روح کے قرب کااندازہ اور کیا ہو گا کہ اس کوسچائی میں لپٹا جھوٹ متاثر کر جائے۔
No comments:
Post a Comment