Saturday, 3 November 2018

کشمیر



شاعرہ: عقیلہ نوال (خونِ سفر)
چل خونِ سفر لکھتے ہیں یہ قلم نہیں شمشیر ہے دیکھ
لاکھوں تومارے گئے اک جیتی جاگتی تصویر ہے دیکھ
پھر ہوش نہیں کچھ دن بھر کاپھر خبر نہ ہو راتوں کی
یہ عالم تک بدل جائے گا جب بدلےگی تقدیر ہے دیکھ
وہ یاد کرو جب تم ہمت والے تم محنت کش جیالےتھے
تم طوفاں کو موڑنے والےہوپھر کیا یہ زنجیر ہے دیکھ
وہ وقت بھی آئے گا اِک ٹکرا تک نہ دیں گے اس کو ہم
یہ پوری اپنی بستی ہے، نہیں کسی کی جاگیر ہے دیکھ
وہ مہکتاساچمن جوچھبتا ھے صیاد کی نگاہوں میں عین
یہ حسیں جنت سا ٹکرا کچھ اور نہیں کشمیر ہے دیکھ



 



Thursday, 5 July 2018

تماشہِ عام


شاعرہ: عقیلہ نوال  
مہربانوں کی بستی میں لٹیروں کا بسیراہے
دو بول محبت والےاورناداں پرندہ گھیرا ہے 

وہ جنت سا منظر ہے، کیا خوب بہاریں ہیں
 روشن رخ ماہتاب سا یہ قاتلوں کا ڈیرا ہے 

کیا شیریں بیا نی اہل ظر ف کی کر دوں بیاں؟
جو گمان میں تیرا ہے،میرے سامنےمیرا ہے 

زندان شام میں پکار کے دیکھو ان اجالوں کو
جہاں ابدی سویرا تھا،لودیکھو اب اندھیرا ہے 

مجھ کو تو مارہی ڈالے گا یہ عام تماشہ عین
 شہد میں لپٹے خنجر کا زخم بہت ہی گہرا ہے

مرے نہیں

شاعرہ: عقیلہ نوال یہ بوجھ، یہ تھکن، یہ صبر و سفر مرے نہیں یہ راہیں، غم و غُصّہ، یہ رہگزر مرے نہیں ہے تیرگی کا سایہ جو رستوں پہ چھا گی...