نظم: یادیں
شاعرہ: عقیلہ نوال
یادیں تمہیں جب ستائیں
گی
پھر ہماری باتیں دہرائی جائیں گی
خوشبو کی مانند فضاؤں میں بکھری ہوئی
میری یادیں تیرے دل میں سمائی جائیں گی
جیتے جی کون سنے
گا ہماری
مر جائیں گے تو ہماری ہی باتیں سنائی جائیں گی
آنسوؤں کی بوندیں بن کر وہ
دل کے کونے میں کہیں چھپ جائیں گی
تقدیر کی چالیں ابھی
تو چپ کرواتی ہیں
لب سِل جائیں گے، کہانیاں سنائی جائیں گی
خاموش گلیوں میں جو ابھی بھٹکتے ہیں
اُس خاموشی کی بھی صدائیں سنائی جائیں گی
وقت کی ریت پر لکھے کسی فسانے سی
سب
کی سب کہانیاں دہرائی جائیں گی
خوشبو بن کر پھیلیں گی یادیں
ہم نہ ہوں گے تو تصویریں دکھائی جائیں گی
رنگین
خوابوں کی دنیا میں غم کی روشنیہو گی
ایک
نئے سفر کی نویدیں سنائی جائیں گی
عین
آنکھیں بھی چھلک جائیں گی
ہم نہ ہوں گے دھڑکنیں پھر بھی سنائی جائیں گی
No comments:
Post a Comment