Monday, 3 March 2014
نظم : پّری
کبھی میں سوچتی ھوں
کاش!
میں ھوتی کویؑ پرّی
باغوں میں پھرتی۔۔۔
ہنستی میں کھیلتی
جیسے کویؑ تتلی۔۔۔۔۔۔۔
رنگوں میں اڑتی
پھولوں میں مہکتی
ھوتی اپنی حسیں سی زندگی
سب کو ستاتی میں
لطف بہت اٹھاتی میں
اپنی ان اداؤں میں بھی ھوتی اک بندگی
غموں کو نہ جھیلتی
خوشیوں سے کھیلتی
گلابوں سی مسکراتی ھو تی یہ اپنی زندگی
شبنم کے موتی ھوں جیسے
چاندنی کا عکس ھو ایسے
شوخ چنچل وادیوں میں بھی ھوتی اک سادگی
کبھی میں سوچتی ھوں
کاش!
میں ھوتی کویؑ پرّی
شاعرہ : عقیلہ نوال
کچھ خاک اڑانی تھی، کچھ ہاتھ اٹھا نا تھا
تدفین سے جلدی ہی گھر لوٹ کےآنا تھا
پھر تشنگی باقی تھی پھر درد کا ساماں تھا
پھر آنکھ سے اشکوں کا سیلاب روانہ تھا
کیا خواہش فرہادی، کیا وصل کی بے تابی
بس شاعری کرنی تھی بس دل کو بہلانا تھا
مبہم سے منا ظر ہیں کچھ یاد نہیں مجھ کو
کس راہ سےآئی ہوں، کس راہ کو جانا تھا
بس اب بکھرنے کا کرنا تھا نظارہ سا
کچھ خاک کے ذروں کی سا حل پر اڑانا تھا
Sunday, 2 March 2014
ماں
شاعر:صوفی غلام محمد
کیوں رہن لگی کلی کیتھے لا
لیا ا ے ڈیرہ
کج دس کے تے جاندی ،کج جان
لگے دسدی
اڑ جا وے کا وا ں چڈ جا وے
بنیرا
سنجی ہو گئی حویلی ،چنگا
لگدا نی ویڑا
میں تے پونی وی نہ کتی سی ٹٹ
گیاں نے تنداں
کیڑا جگ وچ دردی جیہڑا آن
دیوے گنڈ اں
ڈور محبّت دی پا کے مائیں کدی
چڈیا نی کلا
مان ٹٹ جان جدوں کِدا پکڑیا ا ی پلّا
کیوں رہن لگی کلی کیتھے لا لیا ا ے ڈیرہ
مان ٹٹ جان جدوں کِدا پکڑیا ا ی پلّا
کیوں رہن لگی کلی کیتھے لا لیا ا ے ڈیرہ
کج دس کے تے جاندی ،کج جان
لگے دسدی
Sunday, 23 February 2014
کاش!
تحریر: عقیلہ نوال
میری سوچیں تو یہ سوچ سوچ کہ مفلوج ہوگئی ہیں کہ لوگ اپنے چہروں پر نقاب کیوں سجائےرکھتے ہیں۔بعض اوقات تو بہت اٌجلے اور ڈیسنٹ چہرے بھی بڑی آ سانی سے فریب دے جاتے ہیں۔اور میں تو ابھی اس دنیا کے سمندر میں اٌترنا چاہتی ہوں کہ کنارے سے کوئی لہر اٌٹھتی ہے اور میرے پاؤں زمیں سے اٌکھڑ جاتے ہیں، لیکن پھر بھی ان لہروں کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتی ہوں کہ اس کے بنا چارہ بھی نہیں۔
کاش!
یہ دٌنیا اپنا ظاہر اور باطن ایک ہی رکھے اور جو کوئی زبان سے کہتا ہے اس کا عمل بھی ویسا ہی ہو نا چاہیے۔
عین ممکن ہے کوئی ان لفظوں کے کھیل سے ایک حقیقت کو چھپا کر مطمئن کر دے لیکن اس روح کے قرب کااندازہ اور کیا ہو گا کہ اس کوسچائی میں لپٹا جھوٹ متاثر کر جائے۔
میری سوچیں تو یہ سوچ سوچ کہ مفلوج ہوگئی ہیں کہ لوگ اپنے چہروں پر نقاب کیوں سجائےرکھتے ہیں۔بعض اوقات تو بہت اٌجلے اور ڈیسنٹ چہرے بھی بڑی آ سانی سے فریب دے جاتے ہیں۔اور میں تو ابھی اس دنیا کے سمندر میں اٌترنا چاہتی ہوں کہ کنارے سے کوئی لہر اٌٹھتی ہے اور میرے پاؤں زمیں سے اٌکھڑ جاتے ہیں، لیکن پھر بھی ان لہروں کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتی ہوں کہ اس کے بنا چارہ بھی نہیں۔
کاش!
یہ دٌنیا اپنا ظاہر اور باطن ایک ہی رکھے اور جو کوئی زبان سے کہتا ہے اس کا عمل بھی ویسا ہی ہو نا چاہیے۔
عین ممکن ہے کوئی ان لفظوں کے کھیل سے ایک حقیقت کو چھپا کر مطمئن کر دے لیکن اس روح کے قرب کااندازہ اور کیا ہو گا کہ اس کوسچائی میں لپٹا جھوٹ متاثر کر جائے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
غزل
شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...
-
شاعرہ: عقیلہ نوال نظم: رقصِ بسمل رقصِ بسمل بھی ہوں تماشا بھی ہوں میں کہیں بھی نہیں اور بے تحاشا بھی ہوں میں میں وہ آوارہ ...
-
خود پسندی۔۔۔۔۔( تحریر: عقیلہ نوال) میں۔ میرا۔ مجھے ۔۔۔۔۔ کتنے میٹھے الفاظ ہیں! سنتے ہیں تو لگتا ہے کہ سماعتوں میں امرت گھل گ...
-
شاعرہ: عقیلہ نوال چلو ترکِ تعلق ِ وفا ہی سہی تم سے ہم کو اگرچہ گلہ ہی سہی یہ شکایت ،وہ ناراضگی، رنجشیں یہ جُڑے رہنے کا ...