تحریر: عقیلہ نوال
عنوان: خود سے جنگ
سچ کہا جائے تو کبھی کبھار منفی احساسات بھی ایک محرک کا کام کرتے ہیں۔ انسان چلتا ہے ،
لڑکھڑاتا ہے ، گرتا ہے ، سنبھلتا ہے اور پھر سے اٹھ کر چل دیتا ہے۔ لیکن کہیں نہ کہیں زخمی ضرور ہو جاتا ہے اور
زخموں کی جلن اور درد کو محسوس بھی کرتا ہے۔اورکبھی کبھار یہ احساسات انسان کے ہوش
و حواس پر یوں غالب ہو جاتے ہیں کہ بار ہا چاہتے ہوئے بھی منفی خیالات کو جھٹکنا مشکل
کام لگتا ہے یا یوں کہیئے کہ حالات و واقعات بار بار حساس پن کو جھنجھوڑ کر زندہ
کر دیتے ہیں۔ ایسے میں بس یہی احساس غالب ہو جاتا ہے کہ:
بے حسی بھی اب نعمت ٹھہری
رب سے اس کا بھی تقاضا کیجئے
کچھ مقاصد کے حصول کے لئے بے حسی بہترین ہتھیار ثابت ہوسکتا
ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بے حس ہو جانا اتنا ہی آسان ہے؟ کیا ہر مسئلے کا حل بے
حسی ہے؟ اور پھر ان مسائل کا کیا جو صرف دوسروں کے بے حس رویوں کی وجہ سے پیدا
ہوتے ہیں؟
کیا ہی مشکل کام ہے کہ حساس ہوتے ہوئےبھی اپنے تمام تراحساسات
کو منجمند کر کے بس ایک نقطہ پر مرکوز ہوا جائے۔ لیکن ایسا نہ کیا جائے تو شاید
کچھ مقاصد ادھورے رہ جائیں۔
موبائل سکرین کے پیچھے چھپ کر کسی کی سوچ پر تنقید کرنا شاید
آسان کام ہے مگر ان سوچوں کے سفر کو طے کرنا قدرے مشکل !!!
عین ممکن ہے کہ جو احساس کسی کے لئے تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے
وہی احساس دوسرے شخص کے لئے معمولی بات ہو۔ فرق طبعیت اورکیفیات کا ہے۔ ہر شخص کی سوچ کا زاویہ
دوسرے سےمختلف اور منفرد ہو سکتا ہے۔ اور بلاشبہ مثبت سوچ کے حامل افراد معتبر ہیں
کہ شاید پہلی جنگ اپنے وجود سے ہی ہوتی ہے ۔ اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال لینا
معمولی اور عام سی بات ہے مگر حالات کو اپنے موافق بنا لینا بڑے لوگوں کی نشانی ہے
جس کے لئے کہیں نہ کہیں بے حسی درکار ہے۔
معتبر ہوں اسی سبب سے میں
بات کرتا ہوں اپنے ڈھب سے میں
ایک مدت سے آنکھ پتھرائی
دیکھ رویا نہیں ہوں کب سے میں
(ارشد شاہین)
میں اپنی بات کروں تو منفیت سے مثبت ، مثبت سے لڑ کھڑاہٹ
اور لڑکھڑا کر پھر سنبھلنے کے راستوں پر گامزن ہوں اور ان راستوں میں پہلی فتح کچھ
بے جا سوچوں اور احساسات کا قلع قمع کرنا ہو گی۔ اگر ایسا ہو گیا تو مجھے لگتا ہے
کہ میری منزل مجھ سے کچھ دور نہیں۔ (انشاءاللہ)