شاعرہ: عقیلہ نوال
نظم: گردشِ ایام
اے عمرِ رواں ذرا ٹھہر
ابھی کچھ کام باقی ہیں
اک احساس ہے کہیں، کچھ الہام باقی ہیں
کچھ خواب ابھی تو بننے ہیں
وہ ریت کے ذرے ہیں ابھی جو چننے ہیں
میری مسافتیں بھی طویل ہیں
میری رہگزر پہ نقش
ہیں قدم وہ میری ہمتوں کی دلیل ہیں
ستارے بھی ہیں گردشوں میں اور گردشِ ایام بھی ہے
مجھ پہ اٹھی ہیں انگلیاں اور کئی الزام بھی ہیں
لیکن جو منزل کی خماری ہے
ان راستوں کی کٹھنائیوں پہ بھاری ہے
یہ قصہ دیکھنا داستاں نہ ہو جائے
جو ہم نے سوچا ہے وہ وقت سے بیاں نہ ہو جائے
حقیقتیں کہیں دلِ دشمناں پہ گراں نہ گزریں
دیکھنا عین سے کہیں اشکِ رواں نہ گزرے
No comments:
Post a Comment