Friday, 3 July 2020

پھول

شاعرہ: عقیلہ نوال
ساری باتیں،اصول رہنے دو
کانٹوں کے پاس پھول رہنے دو

میں نہیں کوئی شعر کہہ سکوں
ہے کہاں اب نزول رہنے دو

تم دکھوں کو جدا نہ کر دینا
ہم کو یونہی قبول، رہنے دو

ہوا کے دوش پر پڑے جو  دیے
انہیں  کیا  اب وصول رہنے دو

اک پرانے سے بینچ  پر سن لو
 باغ کی جو     ہےدھول رہنے دو

ہم نے پہنا لباس سادہ وہی
  سب ریاہے فضول رہنے دو

ہم جو  اب دربدر بھٹکتے ہیں
کر  لی ہے جو  وہ بھول رہنے دو

کہاں سے لاؤں عین  طرزبیاں
میں تو کہتی ہوں طول رہنے دو

No comments:

Post a Comment

عشق

شاعرہ: عقیلہ نوال   اک تسلسلِ دریغاں کا نام ہے عشق درد بن کر رگِ جاں میں رواں ہے عشق   اک خلش ہے جو صداؤں میں دبی رہتی ہے کب ملی...