Saturday, 12 November 2022

سوچ

نظم: سوچ

شاعرہ: عقیلہ نوال

ایک سوچ مسلسل ہے

سوچ بھی کیا، سوچوں کا تسلسل ہے

مفکر و مدبر و دانا

کوئی دانشور پاگل ہے

کہیں تکمیل کے مراحل میں ہے

کہیں شعر ابھی نامکمل ہے

تلاطم ہے جو قلزمِ جہاں میں

وہی حالات سے بھی اوجھل ہے

کئی مشکلیں پڑی ہے کئی الجھنیں بڑھی ہیں

میں خطاوار ہوں تو پارسا ہے

یہی  اک معاملہ مسلسل ہے

میں تو شہر واسیوں سے دور ہوں

سمجھو کہ رابطہ معطل ہے

عین کے کناروں پر نہیں اشکوں کا کوئی دریا

آنکھ میں بس جیسے کہ ہلچل ہے

اک سوچ مسلسل ہے

سوچ بھی کیا، سوچوں کا تسلسل ہے

No comments:

Post a Comment

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...