شاعرہ: عقیلہ نوال
عشق میں توخسارہ ہو نہیں سکتا
محبتوں میں کنارہ ہو نہیں سکتا
لو آیتِ وصل پڑھ چکے ہیں ہم
یہ ورد اب ہم سےدوبارہ ہو نہیں سکتا
نگاہوں سے راہ کی خاک گر نہ چھانے
تو سمجھو وہ شخص ہمارا ہو نہیں سکتا
قلیل لفظوں میں طویل سجدے ہیں
ہم اسے کھو دیں یہ گوارا ہو نہیں سکتا
ختم ہونے کو ہے سفر یا پھر ملاقات لکھی ہے
اے زندگی !کیا اک اشارہ ہو نہیں سکتا
جسے آنکھوں میں عین بسنا تھا وہ بس گیا
اب یوں روز ہم سے استخارہ ہو نہیں سکتا
No comments:
Post a Comment