Wednesday, 29 January 2020

بات نہ کرو


شاعرہ : عقیلہ نوال 

 

استعاروں کی بات نہ کرو

 تم اشاروں کی بات نہ کرو


جی بھر کے سہہ لینے دو

غم گساروں کی بات نہ کرو


ڈوب جانے دو گہرائیوں میں

ساحل، کناروں کی بات نہ کرو


یہاں قدم قدم ملیں بہروپیے

تم اداکاروں کی بات نہ کرو


لڑکھڑائیں تو سنبھل جائیں گے

تم سہاروں کی بات نہ کرو


لوٹائیں گے تو آخر کیا کیا

قرض داروں کی بات نہ کرو


چنگاری راکھ میں دبی رہنے دو

خدارا! شراروں کی بات نہ کرو



No comments:

Post a Comment

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...