Thursday, 23 April 2020

مسلمان برائے تنقید!

تحریر: عقیلہ نوال
مسلمان برائے تنقید!
عنوان ِ تحریر ناگزیر ضرور۔۔۔ مگر سچائی کا عکاس!!!!
 رمضان کی آمد آمد ہے یا یوں کہیئے کہ تنقیدیت کا موسم ہے۔  رمضان بلاشبہ برکتوں ، رحمتوں کے ساتھ ساتھ تقویٰ کا مہینہ بھی ہے۔  تقویٰ!!!۔۔۔ جس کا معیار ہم انسانوں نے خود ہی طے کر رکھا ہے۔  کراما کاتبیں کے کام میں مدد کا ذمہ بھی ہم انسانوں نے خوب لے رکھا ہے۔ فرائض پہ مامعور ملائک کے طے کرنے سے پہلے ہم دوسروں کے صلوۃوصوم کا معیار طے کر چکے ہوتے ہیں۔ میں یہ باتیں سمجھنے سے قطعی طور پر قاصر ہوں کہ وہ تقویٰ جس کا معیار عرشوں کے مالک نے طے کر رکھا ہے اس کو تم چند رکوع وسجود یا فاقوں کے ترازو میں تولنے والے کون ہوتے ہو۔ وہ تو بڑا بے نیاز ہے ۔۔۔وہ چاہے تو برسوں کی عبادتیں، ریاضتیں رائیگاں چلی جائیں اور چاہے تو اپنے بندے کی ایک ادا پہ اپنی ساری رحمتیں نچاور کر دے۔

افسوس !! کہ مجھ اور آپ جیسے انسان جہاں ایک طرف   رکوع و سجود وقیام سے اپنے رب کو راضی کرنے کی تگ و دو کر رہے ہوتے ہیں وہیں  دوسری طرف لوگوں کے لباس، سوچ، عقائد ، رہن سہن، ماہِ مبارک میں موسیقی سے لطف اندوزی یا دوسرے کئی امور پر تنقید برائے ضمیر تشفی کر کے اپنی نیکیوں اور گناہوں کے پلڑے برابر کرنے کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ 
کچھ اہلِ دانش ایسی تنقید کو اصلاح کا نام بھی دیتے ہیں۔ معاشرے  بدلنے  کا شوق رکھنے والے ایسے عالموں کے لئے سیرتِ طیبہ اور سیرتِ اصحاب کا  روشن باب موجود ہے  جو صرف اور صرف مسلمان برائے عمل کا چیختا ثبوت ہے۔  صدافسوس کہ ہم خود ساختہ اسلام کے اپنے معیاروں پہ طے کردہ سچے مسلمان ہیں۔ اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں تقویٰ کی حقیقت سے روشناس کروائے اور انسانیت سے محبت کی توفیق دے۔ آمین

ذوقِ ستم جنوں کی حدوں سے گزر گیا
کم ظرف زندہ رہ گئے ، انسان مر گیا

Monday, 20 April 2020

شخصیت

شاعرہ: عقیلہ نوال

آئینہ میرا اب عکس سے بھی عاری ہے
میرے حوصلوں کا خمار ہر غم پہ بھاری ہے

ڈوبنے کو تھا ہی کہ پھر سے ابھرنے لگا
شایدلگی شمسِ ناتواں پہ  ضرب کاری ہے

ناقابلِ تفسیر لمحوں  کا بیاں نہ پوچھا کرو
کوئی احساس باقی نہیں، نہ آہ وزاری ہے

وقت کی رفتار کیا کیا نشاں چھوڑے گی
محوِ تماشا ہوں، مجھ پہ بھی حیرت طاری ہے

آنکھیں بھول گئیں ہیں جھلملانا لہجوں پہ
کسی نئی شخصیت کی پسِ پردہ آبیاری ہے

گلے ،شکوے ، شکایتیں،زنجشیں ختم عین
مجھی کو اب  رشتوں کی کچھ پاسداری ہے


Tuesday, 14 April 2020

بیسٹ فرینڈ

تحریر عقیلہ نوال:                                                                                                                  مائی بیسٹ فرینڈ
                                                                                         
عروج و زوال۔۔۔۔ اتار چڑھاؤ۔۔۔یہ تو ہر شخص کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہر شخص اس بات کا خواہشمند بھی ہوتاہے کہ زندگی کے مدوجزر میں کوئی ساتھ ہو ۔۔۔جو کبھی ساتھ مل کر خوشیاں بانٹ کر خوشیوں کا لطف بڑھائے تو کبھی غم کی چھاؤں میں بے ضرر سی دھوپ کا  فرض اداکرے۔ ایسا ساتھ جسے ہر خوشی اور غم کے  پل میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شامل کیا جا سکے۔ آجکل کے مشینی دور میں نہ تو کسی کے پاس ایسی فرصت ہے کہ وہ آپ کے ہر پل میں شریک ہو سکے بلکہ یوں کہیے کہ لوگ بہت  فصیلہ کن شخصیات کے مالک پائے جاتے ہیں ۔ چند روز پہلے کی بات ہے نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ بہت کوشش کی مگر زیادہ دیر سو نہیں پائی۔ سوچا کیوں نہ نمازِ تہجد ادا کر لی جائے۔ غیر متوقع طور پررات کی اس پہر ایک بہترین دوست سے ملاقات ہو گئی- آج تک اس سے بہترین دوست نہیں ملا مجھے۔ یقین کیجئے مجھے اس دوست نے کبھی پلٹ کر میری غلطیوں کا احساس دلا کر شرمندہ نہیں کیا۔ مجھے میری بےوقوفیوں اور بے جا حساس پن کا بھی کبھی احساس تک نہیں دلایا۔ یہ ایسا دوست ہے کہ میں خوش ہوں تو میری خوشیوں کا لطف بڑھا دیتا ہے، میں پریشان ہوں تو میری پریشانیوں کو، میری غلطلیوں کو ، میری کوتاہیوں کوسنتا ہے۔۔۔۔۔ میرے بارے میں رائے قائم نہیں کرتا ۔ مجھے حوصلہ دیتا ہے کہ  ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، مجھے میری طاقتوں اور خوبیوں کا احساس دلاتا ہے۔ میری ہر بات سننے کو ہر پل تیار رہتا ہے۔ میں اس سے دور بھی ہوں تو اس کی محبت اور خلوص کا اثر دل کے کسی کونے میں باقی رہ جاتا ہے۔کسی کے پاس اچھا دوست ہونا بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔کبھی کبھار ہم اپنے ارد گرد کی نعمتوں کو محسوس کرنے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ رات کا وہ لمحہ بھی کیا خوب لمحہ تھا جس نے مجھے ایک نعمت کے احساس سے آشنا کروایا   اور مجھے باور کروا دیا کہ بے شک اللہ سے بہتر کوئی دوست ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ ایسا دوست ہے جو بغیر کسی غرض کے ہمارے ہر پل میں ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ اور یقین مانیئے اپنے دوست سے ایک گھنٹے کی گفتگو کے بعد مجھے اپنے وجود میں زندگی سے پھر سے محسوس ہونے لگی تھی ۔


غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...