تحریر: عقیلہ نوال
مسلمان برائے تنقید!
عنوان ِ تحریر
ناگزیر ضرور۔۔۔ مگر سچائی کا عکاس!!!!
رمضان کی آمد آمد ہے یا یوں کہیئے کہ تنقیدیت کا موسم ہے۔ رمضان بلاشبہ
برکتوں ، رحمتوں کے ساتھ ساتھ تقویٰ کا مہینہ بھی ہے۔ تقویٰ!!!۔۔۔ جس کا
معیار ہم انسانوں نے خود ہی طے کر رکھا ہے۔ کراما کاتبیں کے کام میں مدد کا
ذمہ بھی ہم انسانوں نے خوب لے رکھا ہے۔ فرائض پہ مامعور ملائک کے طے کرنے سے پہلے
ہم دوسروں کے صلوۃوصوم کا معیار طے کر چکے ہوتے ہیں۔ میں یہ باتیں سمجھنے سے قطعی
طور پر قاصر ہوں کہ وہ تقویٰ جس کا معیار عرشوں کے مالک نے طے کر رکھا ہے اس کو تم
چند رکوع وسجود یا فاقوں کے ترازو میں تولنے والے کون ہوتے ہو۔ وہ تو بڑا بے نیاز
ہے ۔۔۔وہ چاہے تو برسوں کی عبادتیں، ریاضتیں رائیگاں چلی جائیں اور چاہے تو اپنے
بندے کی ایک ادا پہ اپنی ساری رحمتیں نچاور کر دے۔
افسوس !! کہ
مجھ اور آپ جیسے انسان جہاں ایک طرف رکوع و سجود وقیام سے اپنے رب کو
راضی کرنے کی تگ و دو کر رہے ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف لوگوں کے لباس، سوچ،
عقائد ، رہن سہن، ماہِ مبارک میں موسیقی سے لطف اندوزی یا دوسرے کئی امور پر تنقید
برائے ضمیر تشفی کر کے اپنی نیکیوں اور گناہوں کے پلڑے برابر کرنے کی جنگ لڑ رہے
ہوتے ہیں۔
کچھ اہلِ دانش
ایسی تنقید کو اصلاح کا نام بھی دیتے ہیں۔ معاشرے بدلنے کا شوق رکھنے
والے ایسے عالموں کے لئے سیرتِ طیبہ اور سیرتِ اصحاب کا روشن باب موجود ہے جو
صرف اور صرف مسلمان برائے عمل کا چیختا ثبوت ہے۔ صدافسوس کہ ہم خود ساختہ
اسلام کے اپنے معیاروں پہ طے کردہ سچے مسلمان ہیں۔ اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں
تقویٰ کی حقیقت سے روشناس کروائے اور انسانیت سے محبت کی توفیق دے۔ آمین
ذوقِ ستم جنوں
کی حدوں سے گزر گیا
کم ظرف زندہ
رہ گئے ، انسان مر گیا