شاعرہ: عقیلہ نوال
آئینہ میرا اب عکس سے بھی عاری ہے
میرے حوصلوں کا خمار ہر غم پہ بھاری ہے
ڈوبنے کو تھا ہی کہ پھر سے ابھرنے لگا
شایدلگی شمسِ ناتواں پہ ضرب کاری ہے
ناقابلِ تفسیر لمحوں کا بیاں نہ پوچھا کرو
کوئی احساس باقی نہیں، نہ آہ وزاری ہے
وقت کی رفتار کیا کیا نشاں چھوڑے گی
محوِ تماشا ہوں، مجھ پہ بھی حیرت طاری ہے
آنکھیں بھول گئیں ہیں جھلملانا لہجوں پہ
کسی نئی شخصیت کی پسِ پردہ آبیاری ہے
گلے ،شکوے ، شکایتیں،زنجشیں ختم عین
مجھی کو اب رشتوں
کی کچھ پاسداری ہے
No comments:
Post a Comment