شاعرہ: عقیلہ نوال
ابھی تو ابتدا سفر کی ہے
بات تو پہلی سی سحر کی ہے
کیا سنے کوئی داستانِ حیات
گفتگو ساری بس دہر کی ہے
ہمیں آشوبِ چشم بھی منظور
آرزو تحفظِ نظر کی ہے
ہوئے تھے زیر جو کبھی تو کیا
بات جاری تو اب زبر کی ہے
یہی اک مخمصہ رہا ہے عین
شہر میں آگ کس خبر کی ہے