Saturday, 19 September 2020

مخمصہ

 

شاعرہ: عقیلہ نوال

ابھی تو ابتدا سفر  کی ہے

بات تو پہلی سی سحر کی ہے

 

کیا سنے کوئی داستانِ حیات

گفتگو  ساری  بس دہر کی ہے

 

ہمیں  آشوبِ چشم بھی منظور

آرزو تحفظِ نظر کی ہے

 

ہوئے تھے زیر جو کبھی تو کیا

بات جاری تو اب زبر کی ہے

 

یہی  اک مخمصہ رہا ہے عین

شہر میں آگ کس خبر کی ہے

 

 

Wednesday, 16 September 2020

گورکھ پنتھی

 

شاعرہ:  عقیلہ نوال

نظم : گورکھ پنتھی

گورکھ پنتھیوں کے جہاں  میں

سب  دھندھےگورکھ دھندھے ہیں

کہاں سے اب کوئی عیسیٰ آئے

کون بلائے مہدی کو

ہر سو تو دجال کے  پھندے ہیں

نام نہادی  مذہبی لوگ

علم و حکمت کے نام پہ روگ

تم کیا جانو ابلیس کے یہ بندے ہیں

یہ کیسا تانا بانا ہے

جو آیا ،لوٹ کے جانا ہے

پھر بھی دیکھو کیسے لوگ یہ اندھے ہیں

سب باتیں جھوٹی باتیں  ہیں

جو سمجھو ، فقط اندھیری راتیں ہیں

اک بستر ہے بِن تکیے کا

اور چار انجانے کندھے ہیں

گورکھ پنتھیوں کے جہاں  میں

سب  دھندھےگورکھ دھندھے ہیں

 

 

Sunday, 6 September 2020

نیلا گلاب

 

شاعرہ: عقیلہ نوال

نظم: نیلا گلاب

میں نیلے گلاب سا وجود لے کر

دریائے نیل کے کناروں سے

پانی کے نیلےقطروں کی مانند

آسماں کی نیلگوں بلندیوں میں

یوں بکھر جاؤں گی اک روزکہ

فلک کا  نیلا رنگ تم   جودیکھو گے

تو پہلے سے کہیں گہرا پاؤ گے

اس روز  سمجھ لینا کہ نیلا رنگ

رگ وپے میں سرایت کر گیا ہے

اور حالات کا گھن چکر جو رکتا نہ تھا

ناجانے کیسے کچھ رعایت کر گیا ہے

میں نیلے گلاب سا وجود لے کر

جس روز یوں بکھر  جاؤں گی

میری خوشبو سے  جومعطر ہو جائے

اس فضا میں خود ہی نکھر جاؤں گی


 

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...