نظم: سوچ
شاعرہ: عقیلہ نوال
ایک سوچ مسلسل ہے
سوچ بھی کیا، سوچوں کا تسلسل ہے
مفکر و مدبر و دانا
کوئی دانشور پاگل ہے
کہیں تکمیل کے مراحل میں ہے
کہیں شعر ابھی نامکمل ہے
تلاطم ہے جو قلزمِ جہاں میں
وہی حالات سے بھی اوجھل ہے
کئی مشکلیں پڑی ہے کئی الجھنیں بڑھی ہیں
میں خطاوار ہوں تو پارسا ہے
یہی اک معاملہ مسلسل ہے
میں تو شہر واسیوں سے دور ہوں
سمجھو کہ رابطہ معطل ہے
عین کے کناروں پر نہیں اشکوں کا کوئی دریا
آنکھ میں بس جیسے کہ ہلچل ہے
اک سوچ مسلسل ہے
سوچ بھی کیا، سوچوں کا تسلسل ہے