Saturday, 27 June 2020

عروض

شاعرہ: عقیلہ نوال

میں عروض  و قیود سے خالی لکھوں
جو لکھوں تو حدود سے خالی لکھوں

مجھے لکھنا ہے خوابوں کا کوئی جہاں
جو لکھوں تو فرود سےخالی لکھوں

کبھی ذکر ہو طول و عروض کا گر
میں رکوع و سجود سے خالی لکھوں

مجھے لکھنا ہے اگرتو  خاص  کیا
میں تو  یونہی حسود سے خالی لکھوں

میں کیا لکھوں داستاں کوئی یہاں
جو اسی کو وجود سے خالی لکھوں



Monday, 22 June 2020

دعوے داریاں


شاعرہ: عقیلہ نوال

تم سے مان نہیں رکھا جاتا،تو دعوے داریاں مت کرو
میں کر جاؤں گلہ شکوہ تو کہنا،کم از کم عیاریاں مت کرو

بہت دیکھے، بہت سے  آئے ، بہت  سےچھوڑ گئے ہیں
تمھی نے اک ساتھ نبھانا ہے؟ جاؤ اداکاریاں مت کرو

ہمیں مرضِ وفا ٹھہرا ،  ہمیں یقیں کر لینے کی عاد ت ہے
تم نے جو کہا سچ کہا، یوں اپنی  ہی طرفداریاں مت کرو

کبھی باتوں میں، کبھی رشتوں میں خلل آ ہی جاتا ہے
جو ملو تم  تو خلوصِ دل سے ملو ، یہ ریاکاریاں مت کرو

مجھے ٹوٹ کر سنبھل جانے کا ہنر عین خوب آتا ہے
مجھے تمھاری ضرورت ہے، مگر یہ غمخواریاں مت کرو

Saturday, 20 June 2020

وعدے


شاعرہ: عقیلہ نوال

روز  کیےوعدوں سے مکر جاتا ہے
وہ اپنی ہی باتوں سے پھر جاتا ہے

یوں تو رہتا ہے ساتھ  میرےہر پل
پھر بھی جانے چلا کدھر جاتا ہے

میرے وجودکو اکثر سمیٹتے ہوئے
وہ ریزہ ریزہ سا  ہو کربکھر جاتا ہے

 وہ جو نہ ہمسفر ہے نہ ہمراہ کوئی
وہی اجنبی سادل میں اتر جاتا ہے

کبھی چل دیتا ہے یونہی منہ موڑ کر
کبھی وہ بن بلائے  ہی ٹھہر جاتا ہے

یوں تودیتا ہے وہ مجھےگھاؤ گہرے
 پھر لفظوں سے  انہیں بھر جاتاہے

ساتھ رہنے کا خواب دکھا تے اکثر
اسکی آنکھوں میں کچھ مر جاتا ہے  

میں ہوں اپنے ہی وجود کی تلاش میں
مجھے چھوڑ کر جانے وہ کس نگر جاتاہے

کبھی عین  مجھ سے میرا وصال ہو گا
پھر دیکھنا کیسے سب یہ نکھر جاتا ہے


غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...