Saturday, 20 June 2020

وعدے


شاعرہ: عقیلہ نوال

روز  کیےوعدوں سے مکر جاتا ہے
وہ اپنی ہی باتوں سے پھر جاتا ہے

یوں تو رہتا ہے ساتھ  میرےہر پل
پھر بھی جانے چلا کدھر جاتا ہے

میرے وجودکو اکثر سمیٹتے ہوئے
وہ ریزہ ریزہ سا  ہو کربکھر جاتا ہے

 وہ جو نہ ہمسفر ہے نہ ہمراہ کوئی
وہی اجنبی سادل میں اتر جاتا ہے

کبھی چل دیتا ہے یونہی منہ موڑ کر
کبھی وہ بن بلائے  ہی ٹھہر جاتا ہے

یوں تودیتا ہے وہ مجھےگھاؤ گہرے
 پھر لفظوں سے  انہیں بھر جاتاہے

ساتھ رہنے کا خواب دکھا تے اکثر
اسکی آنکھوں میں کچھ مر جاتا ہے  

میں ہوں اپنے ہی وجود کی تلاش میں
مجھے چھوڑ کر جانے وہ کس نگر جاتاہے

کبھی عین  مجھ سے میرا وصال ہو گا
پھر دیکھنا کیسے سب یہ نکھر جاتا ہے


No comments:

Post a Comment

غزل

  شاعرہ: عقیلہ نوال کہاں لازمی ہے، بیاں ہر غم آئے؟ کبھی درد بھی بے زباں برہم آئے کسی کی خموشی کو سمجھیے بھی تو یہ لازم نہیں، ہر زباں...