شاعرہ: عقیلہ نوال
ان
آنکھوں پہ جو گزری وہ داستاں لکھوں
جو
درد کا سیلاب ہے اسی کا عنواں لکھوں
میں
لکھوں جاگتی راتوں کا کوئی قصہ
اسی
سوچ میں ہوں کیا اور کہاں لکھوں
میں خود ہی لکھ دوں
گی روداد ساری
جو ہونا باقی ہے اسی کا میں امکاں لکھوں
مجھے رنجشوں سے کب غرض
ٹھہری
میں بھلاکیوں خود
کو شکوہ کناں لکھوں
بے راہ روی کی ڈگر پہ ہے یہ زندگی
میں پھر بھی اس کو رواں دواں لکھوں
مجھے حقیقتوں سے ہے خوب آشنائی
پھرجانے کیوں سچ کو میں گماں لکھوں
ان بے لوث الفتوں کو کیا نام دوں
میں تیری ذات کو کون ومکاں لکھوں
No comments:
Post a Comment